بدن پہ جس کے شرافت کا پیرہن دیکھا
وہ آدمی بھی یہاں ہم نے بد چلن دیکھا
خریدنے کو جسے کم تھی دولت دنیا
کسی کبیر کی مٹھی میں وہ رتن دیکھا
مجھے ملا ہے وہاں اپنا ہی بدن زخمی
کہیں جو تیر سے گھائل کوئی ہرن دیکھا
بڑا نہ چھوٹا کوئی فرق بس نظر کا ہے
سبھی پہ چلتے سمے ایک سا کفن دیکھا
زباں ہے اور بیاں اور اس کا مطلب اور
عجیب آج کی دنیا کا ویاکرن دیکھا
لٹیرے ڈاکو بھی اپنے پہ ناز کرنے لگے
انہوں نے آج جو سنتوں کا آچرن دیکھا
جو سادگی ہے کہن میں ہمارے اے نیرجؔ
کسی پہ اور بھی کیا ایسا بانکپن دیکھا
غزل
بدن پہ جس کے شرافت کا پیرہن دیکھا
گوپال داس نیرج