بدن میں رنگ بھرے لہلہا رہے ہیں چراغ
مہک رہی ہے فضا مسکرا رہے ہیں چراغ
اجالے ڈوبے ہوئے ہیں گھنے اندھیروں میں
عجب سفر ہے بہت یاد آ رہے ہیں چراغ
خدا کرے کہ انہیں یہ ملاپ راس آئے
ہواؤں سے جو تعلق بڑھا رہے ہیں چراغ
سرور لمس کا اب شام لطف اٹھائے گی
کہ دن گزر گیا نزدیک آ رہے ہیں چراغ
تمام رات جلے اب یہ خوف کیسا ہے
ہوائے صبح سے دامن بچا رہے ہیں چراغ
وہ دے رہے ہیں ہمیں بجھ کے بھی پیام حیات
ہمیں اندھیروں میں جینا سکھا رہے ہیں چراغ
اجالے بانٹ رہے ہیں سیاہ راتوں کو
یہ اور بات کہ خود کو جلا رہے ہیں چراغ
وصال و ہجر کے موسم گزر گئے کہ بشیرؔ
جلا رہے ہیں نہ ہم اب بجھا رہے ہیں چراغ
غزل
بدن میں رنگ بھرے لہلہا رہے ہیں چراغ
بشیر فاروقی