بدن کو پھونکتی ہیں نغمہ خوانیاں پیارے
سرود عشق نہ چھیڑیں جوانیاں پیارے
یہ برگ زرد کہ بکھرے پڑے ہیں راہوں میں
یہی ہیں موسم گل کی نشانیاں پیارے
قدم قدم غم ہجراں کی بے پناہی میں
سنا رہی ہے محبت کہانیاں پیارے
کوئی امید نہ ہوتی تو جی بہل جاتا
رلا رہی ہیں تری مہربانیاں پیارے
چراغ ہجر جلاتی رہی ہیں ساری رات
شریک حال مری خوں فشانیاں پیارے
کھلا رہی ہیں گل زخم دیدہ و دل میں
کرشمہ ساز تری دلستانیاں پیارے
ہر اک طرف سے لپکتا ہے دل پہ کوندا سا
کہ تیرے حسن کی ہیں قہرمانیاں پیارے
دکھا رہی ہیں تجھے بے شمار آئینے
مری نگاہ کی یہ بدگمانیاں پیارے
تجھے کچھ اور بھی افسردہ دیکھتے ہیں ندیمؔ
تجھے تو راس نہیں شادمانیاں پیارے

غزل
بدن کو پھونکتی ہیں نغمہ خوانیاں پیارے
صلاح الدین ندیم