بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا
پھر اس کے بعد مرتب نیا نصاب کیا
تھکن سمیٹ کے صدیوں کی جب گرے خود پر
تجھے خود اپنے ہی اندر سے بازیاب کیا
پھر اس کے بعد ترے عشق کو لگایا گلے
ہر ایک سانس کو اپنے لیے عذاب کیا
اگر وجود میں آ کر اسے نہ ملنا تھا
ہمیں کیوں بھیج کے اس دہر میں خراب کیا
اسی نے چاند کے پہلو میں اک چراغ رکھا
اسی نے دشت کے ذروں کو آفتاب کیا
غزل
بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا
فہیم شناس کاظمی