بدن کو چھو لیں ترے اور سرخ رو ہو لیں
بکھرنا ہی ہے تو ہم کیوں نہ مشکبو ہو لیں
چلیں ہیں عشق کی کرنے اگر عبادت ہم
بہا کے اشک ذرا پہلے با وضو ہو لیں
چھپا کے خوابوں خیالوں کو دل کے گوشے میں
ذرا سی دیر حقیقت سے رو بہ رو ہو لیں
برس گئے تو بھلا آب کے سوا کیا ہیں
ان آنسوؤں کی ہے قیمت کی جو لہو ہو لیں
کتاب دل کو ورق در ورق دکھا دیں گے
ذرا ہم آپ سے تم اور تم سے تو ہو لیں
نہ مجھ میں میں ہی رہوں اور نہ تجھ میں تو ہی رہے
ملیں کچھ ایسے کہ دونوں ہی ہو بہ ہو ہو لیں
سفر وفا کا ادھورا ادھورا ہے جان لو نایابؔ
کہ جب تلک نہ دل و جاں لہو لہو ہو لیں
غزل
بدن کو چھو لیں ترے اور سرخ رو ہو لیں
نتن نایاب