بدن کو اپنی بساط تک تو پسارنا تھا
ہر ایک شے کو لہو کے رستے گزارنا تھا
جدھر فصیلوں نے اس کو موڑا یہ مڑ گئی ہے
ہوا کی موجوں میں کوئی کوندا اتارنا تھا
تو کیا سبب سات پانیوں کو نہ پی سکے ہم
خود اپنا ڈوبا ہوا جزیرہ ابھارنا تھا
میں اپنے اندر سمٹ گیا ایک لمحہ بن کر
کہیں تو اپنے جنم کا منظر گزارنا تھا
تم آ گئے کیوں وجود کی یہ برات لے کر
ہمیں تو اپنی رگوں میں شمشان اتارنا تھا
یہاں سے کٹ کر وہ جا کے جنگل میں سو گئی ہیں
اسی بہانے ہواؤں کو کھیل ہارنا تھا
نہ برج ٹوٹے نہ آنکھ جھپکی نہ وقت بیتا
نہ جانے کیا کچھ بسرنا تھا کیا بسارنا تھا
غزل
بدن کو اپنی بساط تک تو پسارنا تھا
چندر پرکاش شاد