بدن کی آنچ سے چہرہ نکھر گیا کیسا
یہ میری روح میں شعلہ اتر گیا کیسا
ہزار آنکھوں سے میں اس کا منتظر اور وہ
مرے قریب سے ہو کر گزر گیا کیسا
یہ کس ہوا کی انا توڑتی رہی ہم کو
ہمارے خوابوں کی خرمن بکھر گیا کیسا
دکھا کے ایک جھلک چاند ہو گیا اوجھل
چڑھا نہ تھا کہ یہ دریا اتر گیا کیسا
کس آفتاب سے ترسیل نور جاری ہے
دھنک کا رنگ زمیں پر بکھر گیا کیسا
نہ اپنے قد کا نہ اپنے حجم کا ہے احساس
خلا کا دشت سبکبار کر گیا کیسا
کسی گمان کے صحرا میں کیسی خاک اڑی
کسی یقین کا پرتو ابھر گیا کیسا
وہ تیرہ چشم کہ سورج سے بد گمان رہا
خود اپنے سائے کی آہٹ سے ڈر گیا کیسا
غزل
بدن کی آنچ سے چہرہ نکھر گیا کیسا
اکبر حیدری