بدن کے گنبد خستہ کو صاف کیا کرتا
ترے جہاں میں نئے انکشاف کیا کرتا
عدم کے اونگھتے پانی میں جب تھی میری لہر
مرے وجود سے میں اختلاف کیا کرتا
نہ کوئی شور تھا اس میں نہ کوئی سناٹا
میں اپنے روح کے گونگے طواف کیا کرتا
کہ اک دوام کے تیور تھے مرتعش اس پر
سفر کی گرد سے میں انحراف کیا کرتا
کئی یگوں کی شفق میں تڑپ چکا ہے ریاضؔ
لہو اب اپنے جنوں کو معاف کیا کرتا

غزل
بدن کے گنبد خستہ کو صاف کیا کرتا
ریاض لطیف