بدن کا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے
سو جو غفلت زیادہ تھی وہی غفلت زیادہ ہے
ہمیں اس عالم ہجراں میں بھی رک رک کے چلنا ہے
انہیں جانے دیا جائے جنہیں عجلت زیادہ ہے
نہ جانے کب کسی چلمن کا ہم نقصان کر بیٹھیں
ہمیں چہرا کشائی کی ذرا رخصت زیادہ ہے
کبھی میں خود زیادہ ہوں تن تنہا کی وحدت میں
کبھی میری ضرورت سے مری وحدت زیادہ ہے
تجھے حلقہ بہ حلقہ کھینچتے پھرتے ہیں دنیا میں
سو اے زنجیر پا یوں بھی تری شہرت زیادہ ہے
یہ دل باہر دھڑکتا ہے یہ آنکھ اندر کو کھلتی ہے
ہم ایسے مرحلے میں ہیں جہاں زحمت زیادہ ہے
میں قرنوں کی طرح بکھرا پڑا ہوں دونوں وقتوں میں
مری جلوت زیادہ ہے مری خلوت زیادہ ہے
سو ہم فریادیوں کی ایک اپنی صف الگ سے ہو
ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمیں حیرت زیادہ ہے

غزل
بدن کا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے
نسیم عباسی