بدل کے رکھ دیں گے یہ تصور کہ آدمی کا وقار کیا ہے
خلا میں وہ چاند ناچتا ہے زماں مکاں کا حصار کیا ہے
بہک گئے تھے سنبھل گئے ہیں ستم کی حد سے نکل گئے ہیں
ہم اہل دل یہ سمجھ گئے ہیں کشاکش روزگار کیا ہے
ابھی نہ پوچھو کہ لالہ زاروں سے اٹھ رہا ہے دھواں وہ کیسا
مگر یہ دیکھو کہ پھول بننے کا آرزو مند خار کیا ہے
وہی بنے دشمن تمنا جنہیں سکھایا تھا ہم نے جینا
اگر یہ پوچھیں تو کس سے پوچھیں کہ دوستی کا شعار کیا ہے
کبھی ہے شبنم کبھی شرارا فلک سے ٹوٹا تو ایک تارا
غم محبت کے رازدارو یہ گوہر آبدار کیا ہے
بہار کی تم نئی کلی ہو ابھی ابھی جھوم کر کھلی ہو
مگر کبھی ہم سے یوں ہی پوچھو کہ حسرتوں کا مزار کیا ہے
بہ ایں تباہی دکھائے ہم نے وہ معجزے عاشقی کے تم کو
بہ ایں عداوت کبھی نہ کہنا کہ آپ سا خاکسار کیا ہے
بنے کوئی علم و فن کا مالک کہ میں ہوں راہ وفا کا سالک
نہیں ہے شہرت کی فکر باقرؔ غزل کا اک رازدار کیا ہے
غزل
بدل کے رکھ دیں گے یہ تصور کہ آدمی کا وقار کیا ہے
باقر مہدی