بدل گئی ہے کچھ ایسی ہوا زمانے کی
کہ عام ہو گئی عادت نظر چرانے کی
یہ بات کاش سمجھتے سبھی چمن والے
چمن لٹا تو نہیں خیر آشیانے کی
انہیں خبر نہیں وہ خود بھی آزمائے گئے
جنہیں تھی فکر بہت مجھ کو آزمانے کی
کوئی کلی نہ رہی پھر بھی مسکرائے بغیر
سزا اگرچہ مقرر تھی مسکرانے کی
ہوا یہی کہ وہ تکمیل تک پہنچ نہ سکا
بہت لطیف تھی تمہید جس فسانے کی
اک آپ ہی پہ نہیں منحصر جناب نظیرؔ
بڑے بڑوں کو ہوا لگ گئی زمانے کی

غزل
بدل گئی ہے کچھ ایسی ہوا زمانے کی
نظیر صدیقی