بدل گئی ہے فضا نیلے آسمانوں کی
بہت دنوں میں کھلیں کھڑکیاں مکانوں کی
بس ایک بار جو لنگر اٹھے تو پھر کیا تھا
ہوائیں تاک میں تھیں جیسے بادبانوں کی
کوئی پہاڑ رکا ہے کبھی زمیں کے بغیر
ہر ایک بوجھ پنہ چاہتا ہے شانوں کی
تو غالباً وہ ہدف ہی حدوں سے باہر تھا
یہ کیسے ٹوٹ گئیں ڈوریاں کمانوں کی
جو ہے وہ کل کے سوالوں کے انتظار میں ہے
یہ زندگی ہے کہ ہے رات امتحانوں کی
غزل
بدل گئی ہے فضا نیلے آسمانوں کی
عرفانؔ صدیقی