بدل چکی ہے ہر اک یاد اپنی صورت بھی
وہ عہد رفتہ کا ہر خواب ہر حقیقت بھی
کچھ ان کے کام نکلتے ہیں دشمنی میں مری
میں دشمنوں کی ہمیشہ سے ہوں ضرورت بھی
کسی بھی لفظ نے تھاما نہیں ہے ہاتھ مرا
میں پڑھ کے دیکھ چکی آخری عبارت بھی
یہ جس نے روک لیا مجھ کو آگے بڑھنے سے
وہ میری بے غرضی تھی مری ضرورت بھی
مری شکستہ دلی ہی بروئے کار آئی
وگرنہ وقت تو کرتا نہیں رعایت بھی
میں اپنی بات کسی سے بھی کر نہ پاؤں گی
مجھے تباہ کرے گی یہ میری عادت بھی
میں کیسے بات بھلا دل کی مان لوں شبنمؔ
کہ اس کو مجھ سے محبت بھی تھی عداوت بھی
یہ میرا عجز کہ دل میں اسے اترنے دیا
یہ اس کا مان کہ مانگی نہیں اجازت بھی
غزل
بدل چکی ہے ہر اک یاد اپنی صورت بھی
شبنم شکیل