EN हिंदी
بڑا غرور ہے پل بھر کی نیک نامی کا | شیح شیری
baDa ghurur hai pal bhar ki nek-nami ka

غزل

بڑا غرور ہے پل بھر کی نیک نامی کا

فراق جلال پوری

;

بڑا غرور ہے پل بھر کی نیک نامی کا
رواج عام ہے اس دور میں غلامی کا

امیر شہر نے دستار چھین لی اس کی
صلہ عجیب دیا روز کی سلامی کا

لب فرات رہے پیاسے وارث زمزم
شکار اکیلا نہیں میں ہی تشنہ کامی کا

بصارت ایسی بصیرت نواز دے اللہ
ہمیں سجھائی دے نکتہ ہماری خامی کا

کبھی تو آئنہ چہرے کے روبرو آئے
کبھی تو لمحہ میسر ہو خود کلامی کا

فراقؔ ہو گئے پتھر ہمارے دونوں پاؤں
بڑا تھا ناز ہمیں اپنی تیز گامی کا