بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
زندہ رکھنے کے لیے رکھا ہے اچھا سلسلہ
اک مٹایا دوسرا ارمان پیدا کر دیا
آپ سمجھانے بھی آئے قبلہ و کعبہ تو کب
عشق نے جب بے نیاز دین و دنیا کر دیا
بندگان دور حاضر کی خدائی دیکھیے
جس جگہ جس وقت چاہا حشر برپا کر دیا
کل کی کل ہے کل جب آئے گا تو سمجھا جائے گا
آج تو ساقی نے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا
محترم پی لیجئے موسم نے موقع دے دیا
دیکھیے کالی گھٹا نے اٹھ کے پردا کر دیا
وہ گھر آئے تھے نذیرؔ ایسے میں کچھ کہنا نہ تھا
شکر کا موقع تھا پیارے تو نے شکوا کر دیا
غزل
بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
نذیر بنارسی