بد گماں کیا قبر میں ارماں ترے لے جائیں گے
ہم اکیلے آئے ہیں جیسے اکیلے جائیں گے
کس قدر ثابت قدم ہیں رہ روان کوئے دوست
جائیں گے پھر ان کی کوئی جان لے لے جائیں گے
حضرت دل اور پھر جائیں نہ اس کی بزم میں
جھڑکیاں دے لے کوئی الزام دے لے جائیں گے
تم ستا لو مجھ کو لیکن یوں نہ ہر اک سے ملو
ظلم سہہ لوں گا مگر صدمے نہ جھیلے جائیں گے
اس گلی میں ڈال دو تا سنبھلیں ٹھوکر کھا کے غیر
یوں بھی اک دن خاک میں آنکھوں کے ڈھیلے جائیں گے
ہے دعاؤں کا اثر سنگ حوادث ہی اگر
اپنے ہاتھوں پھر تو یہ صدمے نہ جھیلے جائیں گے
خیر خواہوں راز داروں کی بہت نیت دیکھ لی
آج سے ہم اس کی محفل میں اکیلے جائیں گے
بے کسی میں کون کس کا ساتھ دیتا ہے صفیؔ
ملنے والے ہیں تماشے کے یہ میلے جائیں گے

غزل
بد گماں کیا قبر میں ارماں ترے لے جائیں گے
صفی اورنگ آبادی