بچپن میں اس درخت پہ کیسا ستم ہوا
جو شاخ اس کی ماں تھی وہاں سے قلم ہوا
منصف ہو یا گواہ منائیں گے اپنی خیر
گر فیصلہ انا سے مری کچھ بھی کم ہوا
اک روشنی تڑپ کے یہ کہتی ہے بارہا
کیوں آسماں کا نور گھٹاؤں میں ضم ہوا
یک لخت آ کے آج وہ مجھ سے لپٹ گیا
جو فاصلہ دلوں میں تھا اشکوں میں ضم ہوا
غزل
بچپن میں اس درخت پہ کیسا ستم ہوا
مینک اوستھی