بچاؤ دامن دل ایسے ہم نشینوں سے
ملا کے ہاتھ جو ڈستے ہیں آستینوں سے
نگار وقت کو اتنا تو پیرہن دے دو
چھپا لے دیدۂ پر نم کو آستینوں سے
ہماری فکر امانت ہے صبح فردا کی
سماں ہے دور کا دیکھو نہ خوردبینوں سے
اب اپنے زخم جبیں کو چھپا بھی لے اے دل
ٹپک رہا ہے پسینہ کئی جبینوں سے
تجھے ہوائے مخالف جگا دیا کس نے
بہت قریب تھا ساحل کئی سفینوں سے
نہ جانے مجرم ذوق نظر پہ کیا گزری
بھری تھی راہ تماشہ تماش بینوں سے
سکوت وقت مورخ ہے لکھ لیا اس نے
جو پتھروں نے کہا بے خطا جبینوں سے
شمیمؔ انجمن اہل زر میں کیا جائیں
لہو کا رنگ جھلکتا ہے آبگینوں سے

غزل
بچاؤ دامن دل ایسے ہم نشینوں سے
شمیم کرہانی