EN हिंदी
باز بھی آؤ یاد آنے سے | شیح شیری
baz bhi aao yaad aane se

غزل

باز بھی آؤ یاد آنے سے

راشد آذر

;

باز بھی آؤ یاد آنے سے
کیا ملے گا ہمیں ستانے سے

خون دل سے دیے جلائے ہیں
ہو کے گزرو غریب خانے سے

کیسی بے رونقی ہے محفل میں
ایک اس کے یہاں نہ آنے سے

در دل وا کیا تو وہ آئے
کون آتا ہے یوں بلانے سے

تجھ سے بچھڑے تو کب یہ سوچا تھا
اس قدر ہوں گے بے ٹھکانے سے

ہم تو حیران ہیں کہ کیوں ہم پر
ظلم ہے اور ہر بہانے سے

رہنے والا ہی جب نہ ہو آذرؔ
فائدہ کیا ہے گھر سجانے سے