باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے
سب باتیں پھولوں جیسی ہیں، آواز مدھر شہنائی ہے
یہ بوندیں پہلی بارش کی، یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی
اک کوئل باغ میں کوکی ہے، آواز یہاں تک آئی ہے
بدنام بہت ہے راہگزر، خاموش نظر، بے چین سفر
اب گرد جمی ہے آنکھوں میں اور دور تلک رسوائی ہے
دل ایک مسافر ہے بے بس، جسے نوچ رہے ہیں پیش و پس
اک دریا پیچھے بہتا ہے اور آگے گہری کھائی ہے
اب خواب نہیں کمخواب نہیں، کچھ جینے کے اسباب نہیں
اب خواہش کے تالاب پہ ہر سو مایوسی کی کائی ہے
پہلے کبھی محفل جمتی تھی محفل میں کہیں تم ہوتے تھے
اب کچھ بھی نہیں یادوں کے سوا، بس میں ہوں مری تنہائی ہے
غزل
باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے
عزیز نبیل