باطن سے صدف کے در نایاب کھلیں گے
لیکن یہ مناظر بھی تہہ آب کھلیں گے
دیوار نہیں پردۂ فن بند قبا ہے
اک جنبش انگشت کہ مہتاب کھلیں گے
کچھ نوک پلک اور تحیر کی سنور جائے
ہر جنبش مژگاں میں نئے باب کھلیں گے
آئینہ در آئینہ کھلے گا چمن عکس
تعبیر کے در خواب پس خواب کھلیں گے
ہو جائیں گے جب غرق صداؤں کے سفینے
سنتے ہیں خموشی کے یہ گرداب کھلیں گے
کیا ان سے سماعت بھی گزر پائے گی اے سازؔ
وہ در جو تہہ جنبش مضراب کھلیں گے
غزل
باطن سے صدف کے در نایاب کھلیں گے
عبد الاحد ساز