EN हिंदी
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں | شیح شیری
baaten to kuchh aisi hain ki KHud se bhi na ki jaen

غزل

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں

حبیب جالب

;

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں
سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں

اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا
اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں

اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا
اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں

اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے
اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں

جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں
تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں