EN हिंदी
بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا | شیح شیری
baat ye hai sada nahin hota

غزل

بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا

جاوید ناصر

;

بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا
کوئی اچھا برا نہیں ہوتا

قرض ہے اور پھر ہمارا دل
عادتوں سے جدا نہیں ہوتا

دوسرا آدمی تو دوزخ ہے
میں کبھی دوسرا نہیں ہوتا

اتنا مانوس ہوں میں دنیا سے
کوئی پل ہو گلہ نہیں ہوتا

نیند کیوں زندگی سے ڈرتی ہے
اور سورج صلہ نہیں ہوتا

عیش و آرام تیرے بارے میں
میں نے دیکھا سنا نہیں ہوتا