EN हिंदी
بات یہ ہے کہ بات کوئی نہیں | شیح شیری
baat ye hai ki baat koi nahin

غزل

بات یہ ہے کہ بات کوئی نہیں

نعیم رضا بھٹی

;

بات یہ ہے کہ بات کوئی نہیں
میں اکیلا ہوں ساتھ کوئی نہیں

اب سہولت پہ ہی قناعت ہے
ہوس ممکنات کوئی نہیں

برگزیدہ ہے میرا سایہ بھی
میرے سائے میں ہاتھ کوئی نہیں

خوف آئے تو کھانس لیتا ہوں
یعنی فطرت میں گھات کوئی نہیں

ایک حد میں رکھا گیا ہے مجھے
اور حد سے نجات کوئی نہیں