بات سورج کی کوئی آج بنی ہے کہ نہیں
وہ جو اک رات مسلسل تھی کٹی ہے کہ نہیں
تیرے ہاتھوں میں تو آئینہ وہی ہے کہ جو تھا
سوچتا ہوں مرا چہرہ بھی وہی ہے کہ نہیں
مجھ کو ٹکرا کے بہ ہر حال بکھرنا تھا مگر
وہ جو دیوار سی حائل تھی گری ہے کہ نہیں
اس کا چہرہ ہے کہ مہتاب وہ آنکھیں ہیں کہ جھیل
بات اس بات سے آگے بھی چلی ہے کہ نہیں
اپنے پہلو میں ہمکتے ہوئے سائے نہ سجا
کیا خبر ان سے یہ ملنے کی گھڑی ہے کہ نہیں
حبس چہروں پہ تو صدیوں سے مسلط ہے مگر
کوئی آندھی بھی کسی دل میں اٹھی ہے کہ نہیں
پوچھتا پھرتا ہوں میں بھاگتی کرنوں سے رشیدؔ
اس بھرے شہر میں اپنا بھی کوئی ہے کہ نہیں

غزل
بات سورج کی کوئی آج بنی ہے کہ نہیں
رشید قیصرانی