EN हिंदी
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی | شیح شیری
baat saqi ki na Tali jaegi

غزل

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی

جلیلؔ مانک پوری

;

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی

وہ سنورتے ہیں مجھے اس کی ہے فکر
آرزو کس کی نکالی جائے گی

دل لیا پہلی نظر میں آپ نے
اب ادا کوئی نہ خالی جائے گی

آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی

کیا کہوں دل توڑتے ہیں کس لیے
آرزو شاید نکالی جائے گی

گرمئ نظارہ بازی کا ہے شوق
باغ سے نرگس نکالی جائے گی

دیکھتے ہیں غور سے میری شبیہ
شاید اس میں جان ڈالی جائے گی

اے تمنا تجھ کو رو لوں شام وصل
آج تو دل سے نکالی جائے گی

فصل گل آئی جنوں اچھلا جلیلؔ
اب طبیعت کچھ سنبھالی جائے گی