بات کیوں کر بنے امید بر آئے کیوں کر
نالہ پر شور نہیں آہ شرربار نہیں
آج آتے ہیں مرے شکوؤں کا لینے وہ حساب
خیر ہے ہاتھ میں ان کے کوئی تلوار نہیں
مجھ سے نفرت سہی لذت کش آزار تو ہوں
غیر بھی غیر ہے وہ خوگر آزار نہیں
جوش مستی میں چلے آئے کہاں تم راقمؔ
یہ تو مسجد ہے چلو خانۂ خمار نہیں

غزل
بات کیوں کر بنے امید بر آئے کیوں کر (ردیف .. ن)
راقم دہلوی