EN हिंदी
بات کچھ بھی نہ تھی کیوں خفا ہو گیا | شیح شیری
baat kuchh bhi na thi kyun KHafa ho gaya

غزل

بات کچھ بھی نہ تھی کیوں خفا ہو گیا

اصغر شمیم

;

بات کچھ بھی نہ تھی کیوں خفا ہو گیا
جو تھا اپنا مرا غیر سا ہو گیا

دھوپ شدت کی تھی چل پڑا راہ میں
ماں کا آنچل مرا آسرا ہو گیا

مجھ کو موج بلا سے کوئی ڈر نہیں
جب سہارا مرا ناخدا ہو گیا

اب تو آنکھوں سے آنسو بھی بہتے نہیں
ظلم جب ان کا حد سے سوا ہو گیا

دل میں اصغرؔ کے خوشیوں کی برسات تھی
ہنستے ہنستے وہ کیوں غمزدہ ہو گیا