بات کچھ بھی نہ تھی فسانہ ہوا
میری رسوائی کا بہانہ ہوا
تھی یہ خواہش کہیں گے سب کچھ ہم
ان کے آگے تو لب بھی وا نہ ہوا
روز آتی ہے اک نئی آفت
دل مرا جب سے عاشقانہ ہوا
کیوں تڑپتا ہے پھر دل مضطر
کس بلا کا یہ پھر نشانہ ہوا
تو نے چھوڑا ہے ساتھ جب سے ندیم
ہائے دشمن مرا زمانہ ہوا
مر ہی جانا تھا ہم کو تو اک روز
ان کی فرقت مگر بہانہ ہوا
آج کہتے ہیں باندھ کر گٹھری
غم کی مغمومؔ پھر روانہ ہوا
غزل
بات کچھ بھی نہ تھی فسانہ ہوا
گور بچن سنگھ دیال مغموم