بات کوئی ایک پل اس کے دھیان کے آنے کی تھی
پھر یہ میٹھی نیند اس کے زہر بن جانے کی تھی
آنکھ ہو اوجھل تو پھر کہسار بھی اوجھل ہیں سب
اک یہی صورت ترے دکھ درد بہلانے کی تھی
دور تک پھیلے ہوئے پانی پہ ناؤ تھی کہاں
یہ کہانی آئنوں پر عکس لہرانے کی تھی
ڈھونڈھتی تھیں شام کا پہلا ستارہ لڑکیاں
کھیل کیا تھا بس یہ اک خواہش کہیں جانے کی تھی
دستکیں دیتا تھا اکثر شام کا ٹھنڈا چراغ
اور یہ دستک کسی کے لوٹ کر آنے کی تھی
غزل
بات کوئی ایک پل اس کے دھیان کے آنے کی تھی
شاہدہ حسن