EN हिंदी
بات ایما و اشارت سے بڑھی آپ ہی آپ | شیح شیری
baat ima-o-ishaaraat se baDhi aap hi aap

غزل

بات ایما و اشارت سے بڑھی آپ ہی آپ

شبنم شکیل

;

بات ایما و اشارت سے بڑھی آپ ہی آپ
اس کی قربت میں بہلنے لگا جی آپ ہی آپ

تازہ کلیوں کے تبسم کا سبب کیا ہوگا
آیا کرتی ہے جوانی میں ہنسی آپ ہی آپ

زرد ہاتھوں پہ محبت کی لہو رنگ حنا
وقت آیا تو رچی اور رچی آپ ہی آپ

بس کہ رکھا تھا مکاں مدتوں تم نے خالی
اس میں بد روح کوئی بسنے لگی آپ ہی آپ

راکھ بنتے وہی چہرہ نہیں دیکھا جاتا
جس کے شعلے کی کبھی دھوم مچی آپ ہی آپ

بنت حوا کسی چہرے سے نہ دھوکا کھائے
کینچلی سانپ بدلتا ہے نئی آپ ہی آپ

کاش ایسا بھی ہو قیمت نہ ادا کرنی پڑے
اور مل جائے مجھے کوئی خوشی آپ ہی آپ