بات چھیڑو نہ کوئی اس کے فسانے والی
ورنہ دل کو نہیں تسکین ہے آنے والی
تھک گئی آج چلائے نہیں تم نے پتھر
مجھ کو عادت ہے سدا خوں میں نہانے والی
پھر اٹھے آج قدم جانب مقتل میرے
یہ کشش جان سے پہلے نہیں جانے والی
اشک ایسے نہ بہاؤ مرا دل جلنے دو
آگ یہ وہ نہیں پانی سے بجھانے والی
غزل
بات چھیڑو نہ کوئی اس کے فسانے والی
سرور نیپالی