EN हिंदी
بات بے بات الجھتے ہو بھلا بات ہے کیا | شیح شیری
baat be-baat ulajhte ho bhala baat hai kya

غزل

بات بے بات الجھتے ہو بھلا بات ہے کیا

اصغر عابد

;

بات بے بات الجھتے ہو بھلا بات ہے کیا
میرے اندر کی بلاؤں سے ملاقات ہے کیا

ہم تو اس پستئ احساس پہ جیتے ہیں جہاں
یہ بھی معلوم نہیں جیت ہے کیا مات ہے کیا

دھند میں ڈوب گیا دل کا محدب عدسہ
کون بتلائے سر ارض و سموات ہے کیا

درد کا غار حرا دل میں کیا ہے تعمیر
مجھ کو معلوم نہیں طرز عبادات ہے کیا

اے مرے لفظ کا قد ناپنے والے یہ بتا
تو جو آیا ہے مقابل تری اوقات ہے کیا