بات بچوں کی تھی لڑنے کو سیانے نکلے
پھر عجب کیا ہے کہ بچے بھی لڑاکے نکلے
دھیان ماں رکھتی تھی میرا وہ زمانے نکلے
ہیں یوں اب روز سویرے سے کمانے نکلے
آم کے باغ سے جب سے ہیں پرندے غائب
بعد اس کے کہاں پھر آم رسیلے نکلے
پوٹلی جس کے لئے لڑتی رہیں اولادیں
ماں کی اس پوٹلی میں صرف جھروکے نکلے
یہ تو کل یگ ہے کھرا اس میں نہیں ہیں کوئی
مجھ کو شکوہ نہیں سکے مرے کھوٹے نکلے
پھر غریبوں کی شکایت کا خدا حافظ ہیں
جب وزیروں کے امیروں ہی سے رشتے نکلے
گرد جب صاف ہوئی سب نے یہ منظر دیکھا
جو نظر آتے تھے اونچے وہی بونے نکلے
ابتدا پھر سے ہے ایک اور سفر کی آتشؔ
بعد مرنے کے بھلے پیروں سے جوتے نکلے
غزل
بات بچوں کی تھی لڑنے کو سیانے نکلے
آتش اندوری