EN हिंदी
بات اب آئی سمجھ میں کہ حقیقت کیا تھی | شیح شیری
baat ab aai samajh mein ki haqiqat kya thi

غزل

بات اب آئی سمجھ میں کہ حقیقت کیا تھی

احسان دربھنگوی

;

بات اب آئی سمجھ میں کہ حقیقت کیا تھی
ایک جذبات کی شدت تھی محبت کیا تھی

اب یہ جانا کہ وہ دن رات کے شکوے کیا تھے
اب یہ معلوم ہوا وجہ شکایت کیا تھی

کوئی اک شوخ اشارہ ہی بہت تھا اے دوست
اتنے سنجیدہ تبسم کی ضرورت کیا تھی

معذرت تھی وہ فقط اپنی غلط بینی کی
جس پہ نازاں تھے بہت ہم وہ بصیرت کیا تھی

حلقۂ زلف رسا اس کے لیے کافی تھا
تیرے دیوانے کو زنجیر کی حاجت کیا تھی

یہ اسی کا ہے نتیجہ کہ تہی دست رہے
ہر کھلونے پہ لپکنے کی ضرورت کیا تھی

فرس عمر ہی اپنا ہے بہت سست قدم
ورنہ احسانؔ پہ تھوڑی سی مسافت کیا تھی