EN हिंदी
بارشیں خون کی تیز ہیں تیز ہیں خون کی آندھیاں | شیح شیری
barishen KHun ki tez hain tez hain KHun ki aandhiyan

غزل

بارشیں خون کی تیز ہیں تیز ہیں خون کی آندھیاں

منظر شہاب

;

بارشیں خون کی تیز ہیں تیز ہیں خون کی آندھیاں
چاک در چاک اڑنے لگیں خون میں زیست کی چھتریاں

رات پٹرول کی آگ سے شہر میں یوں چراغاں ہوا
کانپ کر بجھ گئیں دل کے روشن جھروکوں کی سب بتیاں

بے اماں خلق کرفیو زدہ روز و شب کے اندھیرے میں گم
اپنی گردن میں ڈالے ہوئے اپنے کتبات کی تختیاں

دونوں ہی لکھ رہی تھیں لہو سے مرے سانحہ قتل کا
اک طرف حملہ ور آستیں اک طرف پاسباں وردیاں

گر یوں ہی آگ دامن سے اٹھتی رہی تو جلا ڈالے گی
حسن گل رنگ کا پیرہن عشق گلنار کی دھجیاں

جلتی آنکھوں کے موتی پگھلتے رہے اور احساس کے
ریگ زاروں میں تپتی رہیں میرے خوابوں کی پرچھائیاں

مرگ انبوہ کا جشن ماتم ہے روشن کریں ہم شہابؔ
پھلجھڑی اشک خوش رنگ کی تازہ زخموں کی مہتابیاں