EN हिंदी
بارش میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے | شیح شیری
barish mein aksar aisa ho jata hai

غزل

بارش میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے

وکاس شرما راز

;

بارش میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے
دیوار و در پر سبزہ ہو جاتا ہے

ساکھ خوشی کی کیوں گر جاتی ہے مجھ میں
غم کا پرچم کیوں اونچا ہو جاتا ہے

آخر شب دریا میں سانپ اترتے ہیں
صبح تلک پانی نیلا ہو جاتا ہے

دل کا سونا رہنا ٹھیک نہیں صاحب
سونا دل آسیب زدہ ہو جاتا ہے

جھونکا آتے ہی سیراب صداؤں کا
خاموشی کا دشت ہرا ہو جاتا ہے

تنہا ہوتا ہوں تو مر جاتا ہوں میں
میرے اندر تو زندہ ہو جاتا ہے