EN हिंदी
بارش میں عہد توڑ کے گر مے کشی ہوئی | شیح شیری
barish mein ahd toD ke gar mai-kashi hui

غزل

بارش میں عہد توڑ کے گر مے کشی ہوئی

قمر جلالوی

;

بارش میں عہد توڑ کے گر مے کشی ہوئی
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی

پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی

اچھا تو دونوں وقت ملے کوسیئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی

اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی

دیکھو چراغ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شام ہجر مجھے پوچھتی ہوئی

قاصد انہیں کو جا کے دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے ان سے کوئی بات بھی ہوئی؟

جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردش دوراں رکی ہوئی

مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمرؔ
کیسے وہ آ سکیں گے اگر چاندنی ہوئی