بار دیگر یہ فلسفے دیکھوں
زخم پھر سے ہرے بھرے دیکھوں
یہ بصیرت عجب بصیرت ہے
آئنوں میں بھی آئنے دیکھوں
زاویوں سے اگر نجات ملے
سارے منظر گھلے ملے دیکھوں
نظم کرنا ہے بے حسابی کو
لفظ سارے نپے تلے دیکھوں
آخر آخر جو داستاں نہ بنے
اول اول وہ واقعے دیکھوں
دوریاں دھند بن کے بکھری ہیں
کچھ قریب آ کہ فاصلے دیکھوں
ایک نشہ ہے خود نمائی بھی
جو یہ اترے تو پھر تجھے دیکھوں
لے گیا وہ بچی کھچی نیندیں
خواب کیسے رہے سہے دیکھوں
رات پھیلی ہوئی ہے میلوں تک
کیا چراغوں کے دائرے دیکھوں
غزل
بار دیگر یہ فلسفے دیکھوں
بکل دیو