باقی نہ رہے ہوش جنوں ایسا ہوا تیز
اتنا ہی بھٹکتا رہا میں جتنا چلا تیز
دن ڈھلنے لگا بڑھنے لگے شام کے سائے
اے سست قدم اب تو قدم اپنے اٹھا تیز
کیا جانیے ظالم نے کسے قتل کیا ہے
کیوں ہاتھوں میں آج اس کے ہوا رنگ حنا تیز
اب منزل مقصود بہت دور نہیں ہے
اے ہم سفرو اور ذرا اور ذرا تیز
دیکھو تو سہی کس کے اشارے پہ چلی ہے
آئی ہے کدھر سے یہ فسادوں کی ہوا تیز
اللہ رے یہ میرے سفینے کا مقدر
دو ہاتھ ہی ساحل تھا کہ طوفان چڑھا تیز
اے شوقؔ مرے حال پہ یہ خوب کرم ہے
جب شمع جلاتا ہوں تو ہوتی ہے ہوا تیز
غزل
باقی نہ رہے ہوش جنوں ایسا ہوا تیز
شوق ماہری