باندھتے شاعری میں ہو تل کو
کیا کوئی راس آ گیا دل کو
جانتی ہیں کہ اب وداعی ہے
کشتیاں چومتی ہیں ساحل کو
کام سب ہو گئے مرے آساں
کون سمجھے گا میری مشکل کو
پاؤں میں آنکھ تو نہیں پھر بھی
دیکھتے ہیں قدم یہ منزل کو
شام ہے میں ہوں بند کمرہ ہے
ڈھونڈھتے ہیں چراغ محفل کو
غم سے اک عمر کے مراسم ہیں
توڑ دوں کیسے میں سلاسل کو
دیکھ کر رو پڑا مری حالت
کون سا غم ہے میرے قاتل کو
غزل
باندھتے شاعری میں ہو تل کو
ارشاد خان سکندر