EN हिंदी
باندھتے شاعری میں ہو تل کو | شیح شیری
bandhte shaeri mein ho til ko

غزل

باندھتے شاعری میں ہو تل کو

ارشاد خان سکندر

;

باندھتے شاعری میں ہو تل کو
کیا کوئی راس آ گیا دل کو

جانتی ہیں کہ اب وداعی ہے
کشتیاں چومتی ہیں ساحل کو

کام سب ہو گئے مرے آساں
کون سمجھے گا میری مشکل کو

پاؤں میں آنکھ تو نہیں پھر بھی
دیکھتے ہیں قدم یہ منزل کو

شام ہے میں ہوں بند کمرہ ہے
ڈھونڈھتے ہیں چراغ محفل کو

غم سے اک عمر کے مراسم ہیں
توڑ دوں کیسے میں سلاسل کو

دیکھ کر رو پڑا مری حالت
کون سا غم ہے میرے قاتل کو