بام سے ڈھل چکا ہے آدھا دن
کس سے ملنے چلا ہے آدھا دن
تم جو چاہو تو رک بھی سکتا ہے
ورنہ کس سے رکا ہے آدھا دن
جھانکتی شام کے کنارے پر
مجھ سے پھر لڑ پڑا ہے آدھا دن
اس نے دیکھا جہاں پلٹ کے مجھے
بس وہیں رک گیا ہے آدھا دن
آس کی آہٹیں جگائے ہوئے
کھڑکیوں میں سجا ہے آدھا دن
دھوپ کی ریشمیں طنابوں پر
کس طرح ٹوٹتا ہے آدھا دن
پڑ رہی ہوگی برف وادی میں
آنکھ میں جم گیا ہے آدھا دن
تیرگی کا لباس اوڑھے ہوئے
میرے اندر چھپا ہے آدھا دن
عنبرینؔ ایک ہے بکھیڑے سو
اور گزر بھی گیا ہے آدھا دن
غزل
بام سے ڈھل چکا ہے آدھا دن
عنبرین صلاح الدین