بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا
اب تو اظہار محبت برملا ہونے لگا
عشق سے پھر خطرۂ ترک وفا ہونے لگا
پھر فریب حسن سرگرم ادا ہونے لگا
کیا کہا میں نے جو ناحق تم خفا ہونے لگے
کچھ سنا بھی یا کہ یوں ہی فیصلہ ہونے لگا
اب غریبوں پر بھی ساقی کی نظر پڑنے لگی
بادۂ پس خوردہ ہم کو بھی عطا ہونے لگا
میری رسوائی سے شکوہ ہے یہ ان کے حسن کو
اب جسے دیکھو وہ میرا مبتلا ہونے لگا
یاد پھر اس بے وفا کی ہر گھڑی رہنے لگی
پھر اسی کا تذکرہ صبح و مسا ہونے لگا
کچھ نہ پوچھا حال کیا تھا خاطر بیتاب کا
ان سے جب مجبور ہو کر میں جدا ہونے لگا
شوق کی بیتابیاں حد سے گزر جانے لگیں
وصل کی شب وا جو وہ بند قبا ہونے لگا
کثرت امید بھی عیش آفریں ہونے لگی
انتظار یار بھی راحت فزا ہونے لگا
غیر سے مل کر انہیں ناحق ہوا میرا خیال
مجھ سے کیا مطلب بھلا میں کیوں خفا ہونے لگا
قید غم سے تیرے جاں آزاد کیوں ہونے لگی
دام گیسو سے ترے دل کیوں رہا ہونے لگا
کیا ہوا حسرتؔ وہ تیرا ادعائے ضبط غم
دو ہی دن میں رنج فرقت کا گلا ہونے لگا
غزل
بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا
حسرتؔ موہانی