باعث عرض ہنر کرب نہانی نکلا
لفظ ہی منبع دریائے معانی نکلا
سب کے ہونٹوں کو چھوا ابر رواں نے لیکن
میرے حصے کا نہ دریاؤں میں پانی نکلا
کون ہوتا ہے شریک سفر تنہائی
میرا سایہ ہی مرا دشمن جانی نکلا
زندگی جس کے تصور میں بسر کی ہم نے
ہائے وہ شخص حقیقت میں کہانی نکلا
جس کے سینے میں بھی شادابؔ اتر کر دیکھا
تختۂ مشق ستم ہائے گرانی نکلا
غزل
باعث عرض ہنر کرب نہانی نکلا
عقیل شاداب