باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایا دے وہ سچا سایا گھر میں ہے
پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے
مری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے
تو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیارا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے
کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے
اک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تری تنہا دنیا گھر میں ہے
دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
غزل
باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
عبید اللہ علیم