باغمتی کے پاس ہی کوئی اروت گاؤں ہے
جنم مرا وہیں ہوا وہ ہی تو ایک ٹھاؤں ہے
ڈیٹ تھی چار مارچ اور سال تھا وہ چھیاسی کا
پاک سی اس زمین پر میں نے رکھا جو پاؤں ہے
لوگ وہاں پہ ایسے ہیں جیسے ندی کا نیر ہو
لوگ کچھ ایسے بھی ہیں جو بات کرو تو داؤں ہے
گاؤں میں کچھ درخت ہیں اور اداس عورتیں
وہ جو اداس عورتیں ہیں وہ ہی اصل چھاؤں ہے
گاؤں کے ایک چھور پر لاش مری ہے جل رہی
پاس ہی ایک پیڑ پر کاگ کی کاؤں کاؤں ہے
غزل
باغمتی کے پاس ہی کوئی اروت گاؤں ہے
تری پراری