باغ سارا تو بیاباں نہ ہوا تھا سو ہوا
جو خزاں کا کبھی احساں نہ ہوا تھا سو ہوا
ہم تو بیدار ہوئے خواب سے اپنے لیکن
وہ بھی خوابوں میں پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
ہم بھی کچھ سوچ کے کر بیٹھے بالآخر شکوہ
وہ بھی پہلے تو پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا
مشعلیں سر کی سجائی گئیں طشت زر میں
کب سے مقتل میں چراغاں نہ ہوا تھا سو ہوا
سفر جاں کی ہوئی اب کہیں جا کر تکمیل
یعنی میں بے سر و ساماں نہ ہوا تھا سو ہوا
دیکھتے دیکھتے آ پہنچا سروں تک پانی
اب تک اندازۂ طوفاں نہ ہوا تھا سو ہوا
دوستو میں جو تعلق تھا وہ باقی نہ رہا
دشمنوں میں کوئی پیماں نہ ہوا تھا سو ہوا
اور کیا مجھ کو صلہ ملتا خلوص دل کا
ہدف تہمت یاراں نہ ہوا تھا سو ہوا
دشت میں ابر تو برسا وہ دو اک بوند سہی
پہلے اتنا بھی تو امکاں نہ ہوا تھا سو ہوا
محسنؔ اچھا ہی ہوا اس نے الٹ دی جو نقاب
رنگ اس کا جو نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا
غزل
باغ سارا تو بیاباں نہ ہوا تھا سو ہوا
محسن زیدی