باغ میں پھول کھلے موسم سودا آیا
گرم بازار ہوا وقت تماشہ آیا
سارباں ناقۂ لیلیٰ کو نہ دوڑا اتنا
پاؤں مجنوں کے تھکے ہاتھ ترے کیا آیا
ایک نالہ نے مرے کام کئے باغ میں وہ
گل کو تپ آئی تو شبنم کو پسینہ آیا
رو کے میں نے جو کہا آپ کی ہے چاہ مجھے
ہنس کے بولے کہ بڑا چاہنے والا آیا
جھاڑ دی گرد جو دامن کی کبھی ہم نے اسیرؔ
ہنس کے فرمایا کہ تم کو بھی سلیقہ آیا
غزل
باغ میں پھول کھلے موسم سودا آیا
اسیر لکھنوی