باغ میں کلیوں کا مسکانا گیا
پھول پر تتلی کا منڈلانا گیا
بے ہنر ہونا بھی گویا ہے ہنر
راز یہ تاخیر سے جانا گیا
میرے دل میں بھی تپاں ہیں ولولے
کیوں مجھے بے آرزو مانا گیا
بند غم سے ہم رہا نہ ہو سکے
رائیگاں سب سب کا سمجھانا گیا
ہاتھ ملتا رہ گیا شوق جنوں
توڑ کر زنجیر دل دانا گیا
ہو چکی پامال قدر بندگی
جب اسے کار زیاں جانا گیا
آگہی کی مشکلیں نا گفتنی
کیوں تجھے حد سے سوا جانا گیا
کتنے چہرے رکھتا ہے وہ ایک شخص
کب سحرؔ تم سے وہ پہچانا گیا
غزل
باغ میں کلیوں کا مسکانا گیا
شائستہ سحر