باغ کا باغ اجڑ گیا کوئی کہو پکار کر
کس نے شفق پہ مل دیے پھولوں کے رنگ اتار کر
شام کو موجۂ ہوا جانب دشت لے اڑے
صبح چمن میں آ گئے خاک پہ شب گزار کر
سایۂ آفتاب میں برگ و شرر ٹھٹھر گئے
برف کہاں سے آ گئی دھوپ کا روپ دھار کر
پاس ہی منزل مراد خاک میں تھی چھپی ہوئی
راہ میں پا بریدہ لوگ بیٹھ چکے تھے ہار کر
آج ترے خیال سے دل کو بہت سکوں ملا
ڈوب چلی یہ موج بھی مجھ کو ابھار ابھار کر
جلوۂ ماہتاب بھی شعبدۂ خیال ہے
رات کے پاس کچھ نہیں صبح کا انتظار کر
ولولۂ حیات کے دل میں کئی چراغ تھے
وقت نے سب بجھا دیے ایک ہی پھونک مار کر
غزل
باغ کا باغ اجڑ گیا کوئی کہو پکار کر
شہزاد احمد